آپی اب ہم کیا کریں گے؟ کہاں جائیں گے؟
احمد میں ہوں نا تمھارے ساتھ، پریشان مت ہو میرے بھائی آو وہ تیسری گلی والے کریم انکل کے پاس چلیں وہ بابا کے سب سے پکے دوست ہیں وہ ہمیں رکھ لیں گے اپنے پاس۔۔۔۔
لیکن آپی ان کی تو ایک ٹانگ بھی کٹ گئی اور ان کے بھی تو تین بچے، آنٹی اور دادی بھی ہیں نا پھر ان کا بھی گھر تباہ ہوگیا تو اتنے سے کیمپ میں ہمیں کیسے رکھیں گے؟
نہیں احمد ایسا مت سوچو میرے بھائی، ان کا دل بہت بڑا ہے وہ ہمیں رکھ لیں گے اپنے پاس وہ بابا سے بہت پیار کرتے تھے۔۔۔
بس تم روز آئس کریم کی ضد مت کرنا اور نہ میں ناشتے میں شہد کی ضد کروں گی کیوں کہ اب بابا نہیں ہیں ہماری wishes پوری کرنے کے لیے۔۔۔۔
ہاں آپی میں نہیں کروں گا ہم دونوں بس ایک روٹی میں پیٹ بھر لیں گے، ہم کریم انکل کو بلکل تنگ نہیں کریں گے۔۔۔
چلو احمد اس سے پہلے کے شام ہوجائے چلو کیمپس کی طرف۔۔۔۔۔
(کیمپس پر تو پہلے سے ہی آگ کے شعلے گر چکے تھے۔۔۔۔
کریم صاحب اور ان کی فیملی روزے کی حالت میں ہی شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوچکی تھی۔۔۔۔)
اس تباہی سے جو بھگ دڑ مچی تو ننھی رانیہ کے ہاتھ سے چھوٹے بھیا احمد کا ہاتھ چھوٹ گیا۔۔۔۔ وہ دنوں بچھڑ گئے۔۔۔۔۔
بس پھر رات ہوگئی۔۔۔۔۔۔
اور پھر مجھے یاد آیا کہ کربلا میں بھی تو دو بہن بھائی ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے نا اور مسلمان تب بھی تماشائی بنے ہوئے تھے اور آج بھی بنے ہوئے ہیں۔۔۔